رمضان شریف، مہنگائی اور ہماری سوچ
رمضان شریف کی آمد آمد ہے
ایک طرف تو رمضان مبارک کی برکات ہیں اور دوسری طرف مہنگائی کا رونا۔ اور پھر لوگوں میں یہ تاثرات کہ مسلمانانِ پاکستان رمضان مبارک میں ناجائز نفع کماتے ہیں
میری نظر میں یہ تاثرات بلکل غلط ہیں کہ مسلمان ناجائز نفع کماتے ہیں۔ کیونکہ یہ اک مارکیٹ کا پہلو ہے کہ جب اشیاء خوردونوش یا کسی بھی چیز کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے۔ تو اس چیز کی قیمت میں خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے۔ اکنامکس کی زبان میں اسے ڈیمانڈ سپلائی کا عنصر کہتے ہیں۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ واقعی جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہیں۔ تو اس بات کا خیال کرنا کہ لوگ ناجائز نفع کما رہے ہیں یہ غلط نظریہ ہے۔
ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ کچھ لوگ ذخیرہ اندوز ہوں۔ مگر مسلمان کا لفظ اجتماعی طور پر استعمال کرنا اور سب کو ایک ہی ترازو میں رکھنا نا مناسب ہے۔ ہر مسلمان حرام نہیں کھاتا۔
اب اس مہنگائی ک مسئلے کا حل کیا ہے؟
جو لوگ صاحبِ استطاعت ہیں ان کو سامنے آنے کی ضرورت ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، وَخَالِي يَعْلَى، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَجَّاجٍكُلُّهُمْ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا۔ اور روزہ دار کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں ہو گی
سنن اِبْن ماجہ ، جلد 1 1746 حدیث صحیح
الحمدﷲ ، پاکستان سمیت بہت دنیا بھر میں لوگ دوسروں کا روضہ افطار کروانے کے لیے اہتمام کرتے ہیں۔ اور مختلف جگہوں پر دسترخوان لگائے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی انفرادی طور پر اپنے ارد گرد موجود روضہ داروں کا خیال کرنا چائیے۔ اپنے عزیز و اقارب، ہمسائے، دوست احباب اور اپنے گلی مہلوں میں نظر رکھنی چاہئے کہ کوئی ضرورت مند ہماری مدد کا منتظر ہو۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ لِي جَارًا يُؤْذِينِي، فَقَالَ: انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ، فَانْطَلَقَ فَأَخْرِجَ مَتَاعَهُ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَقَالُوا: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: لِي جَارٌ يُؤْذِينِي، فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَقَالَ: انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ، فَجَعَلُوا يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ، اللَّهُمَّ أَخْزِهِ. فَبَلَغَهُ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى مَنْزِلِكَ، فَوَاللَّهِ لاَ أُؤْذِيكَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا، اللہ کے رسول، میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے نقصان پہنچاتا ہے۔ اس نے کہا، ‘جاؤ اور اپنا سامان سڑک پر لے جاؤ۔’ وہ اپنا سامان باہر سڑک پر لے گیا، لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور پوچھا، ‘کیا بات ہے؟’ اس نے جواب دیا کہ میرا پڑوسی مجھے اذیت دیتا ہے۔اور میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی چیزیں سڑک پر لے جاو“ (یہ بات سن کر) لوگ کہنے لگے: اےﷲ! اس کے پڑوسی کو اپنی (خاص) رحمت سے دور کر، اسے بے وقار کر دے۔ ۔ یہ سن کر وہ آدمی باہر آیا اور اس کے پاس آیا اور کہا کہ اپنے گھر واپس چلو، اللہ کی قسم میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ الادب المفرد۔ 124
کامل مومن کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔ اور اپنے قول/فعل یا کسی بھی ذریعہ سے اذیت نہیں پہنچاتا۔ حضور نبی کریمﷺ منبعِ حکمت ہیں۔ اس لیے آپﷺ نے ستانے والے پروسی کا حکمت بھرا علاج تجویز کیا۔
ہر کام کے لیے حکومتوں کا منتظر رہنا اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنا مسائل کا حل ہرگز نہیں۔ حکومتی سطح پر بھی جو لوگ بیٹھے ہیں۔ وہ بھی مسلمان ہیں ان کو بھی رمضان مبارک میں خیال کرنا چاہئے کہ جتنا ان سے ہو سکے رمضان میں ریلیف پیکج دیں۔ تا کہ لوگوں کے لیے رمضان برکات کا مہینہ ہو نہ کے آزمائشوں کا۔
کسی کے گھر فروٹ دے آئیں، کسی کے گھر گوشت دے آئیں۔ مل جل کر اک دوسرے کا ساتھ دیں رمضان مبارک ہستے ہستے گزر جائے گا اور آپ کا اجر بھی دگنا ہو جائے گا انشاءﷲ۔